مدارس کے قیام، تحفظ اور ترقی کے اصول

از: مولانا عبداللطیف قاسمی        

خادم جامعہ غیث الہدیٰ بنگلور       

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   

 

            ہندوپاک کے اکثر اہل السنہ والجماعہ کے مدارس براہ راست یابالواسطہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہیں اوراس کا پرتوہیں، ہمارے مدارس کے قیام کے مقاصدبھی وہی ہیں جن مقاصد کے لیے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ نے دارالعلوم دیوبندکو قائم فرمایا تھا، دارالعلوم دیوبندکی بقاء، تحفظ اورترقی کے لیے جن اصول کو آپ نے مقررفرمایا ہم بھی ان اصول کا اہتمام کریں گے، تو ان شاء اللہ ہمارے مدارس بھی محفوظ رہیں گے، قیامت کی صبح تک دینی خدمت میں مصروف بھی رہیں گے، اورہم ان شاء اللہ اپنے مقصدمیں کامیاب وسرخ رو بھی ہوں گے ۔

             دارالعلوم دیوبندکے قدیم دستورِاساسی کے مطابق دارالعلوم کو مندرجہ ذیل مقاصدکے لیے قائم کیاگیاہے :

            (۱)قرآن مجید،تفسیر،حدیث،عقائدوکلام اوران کے علوم کے متعلقہ ضروری اورمفیدفنون آلیہ کی تعلیم دینا اورمسلمانوںکومکمل طورپراسلامی معلومات بہم پہنچانا، رشدوہدایت اورتبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت انجام دینا ۔

            (۲)اعمال واخلاق ِاسلامیہ کی تربیت اورطلباء کی زندگی میں اسلامی روح پیداکرنا ۔

            (۳)اسلام کی تبلیغ واشاعت اوردین کا تحفظ ودفاع اوراشاعتِ اسلام کی خدمت بذریعہ تحریروتقریربجالانا اورمسلمانوںمیں تعلیم وتبلیغ کے ذریعے خیرالقرون اورسلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اورجذبات پیداکرنا ۔

            (۴)حکومت کے اثرات سے اجتناب واحتراز اورعلم وفکرکی آزادی کوبرقراررکھنا ۔

            (۵)علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارسِ عربیہ قائم کرنا اوران کا دارالعلوم سے الحاق ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند ۱؍۱۴۲)

            مدارس کی تعلیمی اورتعمیری ترقی اور مذکورہ بالامقاصدکی تکمیل میں ذمہ دارانِ مدارس اوراساتذئہ مدارس دونوںکا اہم کردارہوتاہے اوردونوںکا مقصدایک ہوتاہے ؛البتہ خدمت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔

            ذمہ دارانِ مدرسہ اپنے علاقہ میں مسلمانوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت، امت مسلمہ کی نئی نسل کو دینی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ کرنے اوراسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے مدرسہ کی بنیادررکھتے ہیں، مدرسہ کے لیے تمام ضروری وسائل، جگہ کی فراہمی، مالیات کی فراہمی،  اساتذہ وطلبہ سے متعلق تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے ہیں، تو اساتذہ ان ذمہ داروںکے حسین خوابوں کوشرمندئہ تعمیرکرنے والے ہیں ۔

            جن مقاصدکے لیے ذمہ دارن ِمدرسہ بیج بوتے ہیں، اساتذہ اس بیج کو تناوراورثمرآوردرخت بنانے والے ہیں ۔

            ذمہ دارانِ مدرسہ، مدرسہ کو ظاہری اعتبارسے مزین کرتے ہیں، تو اساتذہ مدرسہ کو حقیقی اعتبارسے یعنی امت کے نونہالوںکو علمِ دین سے آراستہ کرنے کے اعتبارسے کوشش کرتے رہتے ہیں۔

            لہٰذا مدارس کے مقاصدمیں کامیابی کے لیے ذمہ دارانِ مدرسہ اوراساتذئہ مدرسہ دونوں برابرکے شریک ہیں، مدارس کے بقاوتحفظ اور مقصدمیں کامیابی کے لیے دونوںکوآپس میں ایک دوسرے کا محسن ومعاون سمجھنا چاہیے ۔

            ذمہ دارانِ مدرسہ اگرمدرسہ کے لیے جگہ خریدیں اورشاندارعمارت تعمیرکرلیں، تمام ضروریاتِ مدرسہ کی تکمیل کرلیں؛ لیکن مدرسہ کی چہاردیواری میں طلبہ واساتذہ نہ ہوں،تو یہ تعمیرات واسباب کچھ کام کے نہیں ہیں، اسی طرح موجودہ زمانہ میں کوئی شخص ذی استعداد عالم بن جائے ؛لیکن پڑھانے کے لیے کوئی موزوںومناسب دارالعلوم/مدرسہ /مکتب نہ ملے، تو اس کی صلاحیت و استعداد استعمال نہیں ہوگی، دنیوی کاروبارمیں لگنے کی وجہ سے بربادہوجائے گی۔

            بہرحال ذمہ داران اوراساتذہ مدارس کی ترقی اورمقاصد میں کامیابی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانندہیں،لہٰذاآپسی وحدت واجتماعیت، اتحادِفکراوراجتماعیتِ قلوب کی اشدضرورت ہے، ذمہ دارنِ مدرسہ کی فکر کچھ اورہے، اساتذہ کی سوچ الگ اورمحنت الگ ہے، تولاحاصل ہے، اساتذہ باصلاحیت اورذی استعداد ہیں؛ لیکن مدرسہ میں وسائل کی کمی اور اسباب کا فقدان ہے، تو مدرسہ کی ترقی نہیں ہوسکتی۔

             اتحادِفکراوراجتماعیت قلوب کے لیے درج ذیل امور کا اہتمام ضروری ہے :

(۱)باہمی تعاون

            قیامِ مدرسہ کے مقاصدکی تکمیل عملہ اورذمہ داروں کے آپسی تعاون کے بغیرناممکن ہے،  مدرسہ کی ضروریات کی تکمیل اورضر وری اشیاء کی فراہمی، وغیرہ میں ذمہ دارانِ مدرسہ کا تعاون ضروری ہے، طلبہ کی تربیتی اخلاقی اورتعلیمی ترقی میں اساتذہ کا کرداروتعاون اہم ہے، نیز ایک مدرسہ میں خدمت کرنے والوںکا بھی آپس میں ایک دوسرے کا معاون ہونا ضروری ہے،اپنی مفوضہ ذمہ داریوں نیزاسباق ونگرانی کی ترتیب اوراوقات کا اہتمام وغیرہ کوپوراکرنے کہ ذریعے مہتمم /صدرمدرس/ناظم کاتعاون ضروری ہے، مشورہ طلب امورمیں مہتمم /ناظم ؍صدرمدرس کا اساتذہ سے مشورہ کرنے سے اساتذہ معاون بنیں گے ورنہ معاندبن سکتے ہیں  ۔

(۲)آپسی اکرام وتعظیم

            ذمہ داران واساتدہ میں سے کوئی حاکم ومحکوم نہیںہے،دونوںکا مقصدایک ہے، ہرمسلمان کو اس کے شایان شان اکرام کرنا یہ شرعی واخلاقی فریضہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے، بڑے،  مسلم غیرمسلم شرفائے قوم میں سے ہرایک کا اس کے لائق اکرام فرمایا کرتے تھے ۔

            عکرمہ بن ابی جہل ؓمسلمان ہوکر مدینہ منورحاضرہوئے، تو آپ نے ارشادفرمایا: عکرمہ بن ابی جہل آرہے ہیں، کوئی شخص ان کے باپ کی وجہ سے ان کو عارنہ دلائے، نیز آپ نے کھڑے ہوکران کا استقبال فرمایا۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اَنْزِلُواالنَّاسَ عَلیٰ مَنَازِلِہِمْ۔ (ابوداؤدکتاب الاداب،رقم :۴۸۴۲)

            ہرآدمی کے ساتھ اس کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھو۔

            ذمہ دارانِ مدرسہ، مدرسہ کے محسن، معاون، خیرخواہ اورمدرسہ کے خارجی انتظامی امور کوانجام دینے والے ہوتے ہیں نیزعمرمیں بھی عمومًابڑے ہوتے ہیںاورتمام انتظامی امورکے الجھنوںکو اپنے سرلے کرہم کو دینی تعلیم کے مشغلہ کے لیے فارغ کردیاہے ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

            لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا۔ (ترمذی باب رحمۃ الصبیان: ۱۹۲۱)

            جوشخص چھوٹوں پررحم نہ کرے اوربڑوںکی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

            اساتذہ حفاظِ قرآن، علمائِ دین،انبیاء کے وارثین اورعلم ودین کے خادمین ہوتے ہیں، اس اعتبارسے وہ اکرام واعزاز کے مستحق ہیں ۔

(۳)آپسی مشورہ

            ذمہ داران ِ مدرسہ کو چاہیے مدرسہ سے متعلقہ امورآپسی مشورہ سے انجام دیں، نیزناظمِ مدرسہ وصدرمدرس کو قابل مشورہ امورمیں اساتذہ سے مشورہ کا اہتمام کرے، اس سے ذمہ دارن اوراساتذہ کے درمیان اعتماد واطمینان کی کیفیت پیداہوتی ہے اورطے شدہ امورکی تکمیل میں تعاون رہتاہے، ہم سب مشورہ کی اہمیت وافادیت سے بخوبی واقف ہیں ۔

(۴)نزاع واختلافات سے اجتناب

            جھگڑے واختلافات سے گھراجڑ جاتا ہے،خاندان بکھرجاتاہے،ملک بک جاتے ہیں، تنظیمیں ٹوٹ جاتی ہیں، قومیں بربادہوجاتی ہیں، اگرذمہ داران اوراساتذہ میں اختلافات پیدا ہوں گے، تو مدارس ویران ہوجائیں گے ۔

            اگرمدارس کے ذمہ داروںمیں اختلاف ہوگا، مدرسہ کی ترقی تنزل میں بدلے گی، اپنی ذات کی، ذمہ داروں کی اورمدرسہ کی بدنامی ہوگی اورمدرسہ ترقی کی راہ سے کوسوں دورہوجائے گا، اگراس طرح کے حالات اورمشکلات پیداہوجائیں،تواس کو خوش اسلوبی سے اپنے بڑوں سے حل کرانا چاہیے نیز ان مصائب وحوادث پر صبرسے کام لینا چاہیے۔ ان شاء اللہ۔اللہ کی مددونصرت آئے گی ۔

(۵)اخلاص ِنیت

            مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی خدمت ہم سے متعلق ہو، اس اللہ کی رضا اور دینِ اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لیے کرنا چاہیے، عمل خواہ کتناہی بڑاہو،اگروہ اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو،تو دنیوی مقاصد ممکن ہے حاصل ہوجائیں؛لیکن قیامت میں وبال کا سبب ہوگا، جیساکہ حضرت ابوہریرۃ ؓ کی مشہورحدیث میں عالم، سخی اورمجاہد کے احوال ذکرکیے گئے ہیں اورجوعمل اللہ کے لیے نہ ہو،اس میں برکت نہیں ہوتی اور دیرپا بھی نہیں ہوتا، لہٰذا ضروری ہے کہ مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی ہم خدمت انجام دے رہے ہوں، اس کو اللہ کا فضل اوراس کی عظیم نعمت سمجھیں اور اپنے عہدوںاور کارناموں پر نہ اترائیں اورکسی عمل کو لوگوںکو دکھاوے کے لیے نہ کریں۔

            قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ دینی مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے قیام وبقا اورترقی کے لیے جودستورالعمل تجویز فرمایاہے وہ پیش ِخدمت ہے، بقول حضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ اصول کا متن حضرت والاکے قلم کا لکھا ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے خزانہ میں محفوظ ہے ،جس کا عنوان ہے:  وہ اصول جن پہ یہ مدرسہ اورنیز مدار سِ چندہ مبنی معلوم ہوتے ہیں (خطباتِ حکیم الاسلام ۹؍۲۵۳)

            (۱)اصل اول یہ ہے کہ تامقدورکارکنانِ مدرسہ کو ہمیشہ تکثیرچندہ پرنظررہے، آپ کوشش کریں اوروں سے کرائیں،خیراندیشانِ مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے ۔

            (۲)ابقائے طعامِ طلبہ بلکہ افزائش طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیراندیشانِ مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں ۔

            (۳)مشیران ِمدرسہ کوہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اورخوش اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اوراوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوارہو،تو پھراس مدرسہ کی بنیادمیں تزلزل آجائے گا، القصہ تہہ دل سے بروقت مشورہ اورنیز اس کے  پس وپیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہاررائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اورسامعین بہ نیت نیک اس کوسنیں،یعنی یہ خیال رہے کہ اگردوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی، تواگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو،بدل وجان قبول کریں گے اورنیز اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امورمشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کرے، خواہ وہ لوگ ہوں جوہمیشہ مشیرِمدرسہ رہتے ہیں یاکوئی وارد وصادر جو علم وعقل رکھتاہواورمدرسوں کا خیراندیش ہواورنیز اس وجہ سے ضرورہے کہ اگراتفاقا کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورے کی نوبت نہ آئے اوربہ قدرضرورت اہل مشورہ کی مقدارمعتدبہ سے مشورہ کیا گیاہوتواس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگرمہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتے ہیں ۔

            (۴)یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین ِمدرسہ باہم متفق المشرب ہوں اورمثل علماء روزگار خودبیں اوردوسروں کے درپئے توہین نہ ہوں،خدانخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تواس مدرسہ کی خیرنہیں ۔

            (۵)خواندگی مقررہ اس اندازسے جوپہلے تجویز ہوچکی ہے یا بعدمیں کوئی اورانداز مشورہ سے تجویز ہوپوری ہوجایاکرے ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آبادنہ ہوگا اوراگرہوگا تو بے فائدہ ہوگا ۔

            (۶)اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ۔ان شاء اللہ۔ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اورکوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیریاکارخانہء تجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ تو پھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاجوسرمایہ رجوع الی اللہ ہے، ہاتھ سے جاتارہے گا اورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوںمیں باہم نزاع پیداہوجائے گا، القصہ آمدنی اورتعمیروغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسانی ملحوظ رہے ۔

            (۷)سرکارکی شرکت اورامراء کی شرکت بھی زیادہ مضرمعلو م ہوتی ہے ۔

            (۸)تامقدورایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب ِبرکت معلوم ہوتاہے جن کو اپنے چندہ سے امیدناموری نہ ہو،بالجملہ حسنِ نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتاہے ۔

            تحریک ِخلافت کے موقع پرمولانا محمدعلی جوہرمرحوم دارالعلوم دیوبندآئے اورحضرت نانوتویؒ کے اصولِ ہشت گانہ دیکھے، تو مولانا محمدعلی جوہر کے آنکھوںمیں آنسوں آگئے اورفرمایا کہ ان اصول کا عقل سے کیا تعلق ہے ؟یہ تو خالص الہامی ومعرفت کے سرچشمے سے نکلی ہوئی باتیں ہیں، سوبرس کے بعددھکے کھاکرہم جس نتیجے پرپہنچے ہیں، حیرت ہے کہ یہ بزرگ پہلے ہی اس نتیجے پرپہنچ چکے ہیں۔ (تاریخ دارالعلوم ۱؍۱۵۲)

             ہم سب کے لیے دفعہ نمبرتین اوراساتذہ کے لیے بہ طورخاص دفعہ نمبرچاراور پانچ میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

            غرض یہ ہے مدارس کی ترقی کے لیے ذمہ داران اوراساتذہ کو باہم معاون بن کر، الفت ومحبت، ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے ہوئے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشورہ کے ساتھ خدمت میں لگنا چاہیے،ا ن شاء اللہ اپنی ذات کی بھی ترقی ہوگی اورمدرسہ کی بھی ترقی ہوگی ۔

*  *  *

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 12،  جلد:101‏، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء